Login
|
Sign Up
Toggle navigation
HOME
Fatawa (
55
)
Aqaid w Imaniyyat (
1
)
Islami Aqaid (
0
)
Adyan-o-Mazahib (
0
)
Firaq-e-Batila (False Sects) (
0
)
Bid'aat-o-Rusumat (
0
)
Taqleed A'imma, Masalik (
0
)
Quran-e-kareem (
1
)
Hadees & Sunnat (
0
)
Dawat & Tableegh (
0
)
Ibadat (
10
)
Taharat (purity) (
4
)
Namaz (Prayer) (
3
)
Juma, Eidain (
1
)
Ahkam-e-Mayyet (
0
)
Rozah (Fasting) (
1
)
Zakat & Sadqat (
0
)
Hajj & Umrah (
1
)
Zabeeha & Qurbani (
0
)
Qasam & Nazar (
0
)
Auqaf, Masajid, Madaris (
0
)
Muamalat (
5
)
Tijaarat (Buisnes) (
2
)
Intrest ,Insurrance (
3
)
Warasat (
0
)
Muaashrat (
4
)
Nikah (Marriage) (
4
)
Talaaq (Divorce) (
0
)
Libas & Lifestyle (
0
)
Akhlaaq & Aadab (
0
)
Ta'leem & Tarbiyat (
0
)
Mutafarriqat (
7
)
Halal & Haram (
3
)
Tasawwuf (
0
)
Seerat & Maghazi (
0
)
Other (
4
)
Recent Fatawa
Article
Ask a Question
معاملات
/
وراثت
India
سوال # :
1084
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں (۱) زید کا انتقال ہوگیا ہے مرحوم کے وارثین میں والدین، چار بھائ ایک بہن اور ایک بیوی موجود ہیں زید کے کوئی اولاد نہیں ہے اس صورت میں زید کے مال کی تقسیم کس طرح ہوگی (۲) زید نے اپنی زندگی میں LIC کی ایک پالیسی لی تھی اس میں نومنی( یعنی بعد انتقال اس پالیسی کی رقم کی حقدار) اپنی بیوی کو بنایا تھا معلوم یہ کرنا ہے کی زید نے LIC میں جو رقم جمع کی تھی کیا اب اس رقم کی مالک صرف زید کی بیوی ہوگی یا دیگر وارثین بھی حقدار ہونگے. (۳) زید کے والد نے ابھی مکان وغیرہ کی تقسیم اپنی اولاد کے درمیان نہیں کی تھی. تو کیا زید کی بیوی کا اپنے حسر کی غیر منقسم جائداد منقولہ یا غیر منقولہ میں شرعاً کوئی حصہ ہے ؟ اگر ہے تو کتنا؟ اگر نہیں تو زید کی بیوی اگر کورٹ میں مقدمہ دائر کرکے اپنے خسر کی جائداد میں سے کچھ حصہ حاصل کر لے تو شرعاً اس کا کیا حکم ہے ؟ مدلل جواب عنایت فرمائیں،
Published On :
Jan 23, 2021
جواب :
1084
بسم الله الرحمن الرحيم
الجواب وباللہ التوفیق
(الف) بشرطِ صحتِ سوال و عدم موانع ارث مرحوم کے ترکہ میں سے حقوقِ متقدمہ کی ادائیگی کے بعد مرحوم کی کل جائداد منقولہ و غیر منقولہ کو ۱۲ حصوں میں تقسیم کرکے چوتھائی حصہ ( %25) زید کی بیوی کو اور چھٹا حصہ ( %16.67) زید کی ماں کو اور ما بقیہ حصص (%58.33) زید کے والد کو دئے جائیں گے ۔ باپ کی موجودگی میں زید کے بھائی بہن محجوب ہونگے۔ (ب)انشورینس میں کسی کو وارث بنانے کی شرعی حیثیت وصیت کے درجہ میں ہوتی ہے اور شرعاً وصیت ذوی الفروض کے حق میں معتبر نہیں ہوتی اس لئے انشور ینس پالیسی کے نام پر ملنے والی ساری رقم کی حقدار تنہازید کی بیوی نہیں بالکہ مذکورہ تمام وارثین بھی ہونگے واضح رہے انشورینس میں ملنے والی تمام رقم حلال وجائز نہ ہوگی، بلکہ انشورینس ہولڈر (زید) نے مختلف اقساط میں جو اصل رقم جمع کی تھی، میت کے ورثاء کے لیے صرف وہی رقم لینا حلال ہے، اور وہی پیسے میت کے ورثاء میں اوپر ذکر کئے گئےشرعی حصوں کے تناسب سے سے تقسیم ہوں گے، اصل جمع شدہ رقم کے علاوہ انشورینس کمپنی کی طرف سے ملنے والی مزید رقم بلانیتِ ثواب فقراء و مساکین کو دینا ضروری ہوگا (ج) زید کی بیوی کا حق صرف زید کی جائداد میں ہے خسر کی کسی بھی جائداد منقولہ یا غیر منقولہ میں زید کی بیوی کا شرعاً کوئی حق نہیں ہے ۔ البتہ اگر زید کی بیوی حاجتمند ہو تو زید کے والد کو اختیار ہےکہ اگر کچھ دینا چاہیں تو بطور ہبہ اپنی حیات ہی میں کچھ دے کر قبضہ کے ساتھ مالک بنا دیں اور اگر چاہیں تو بعد انتقال کے ایک تہائی یا اس سے کم کسی بھی مقدار کی وصیت بھی کر سکتے ہیں۔ زید کی بیوی کے لئے حکومت کی مدد لیکر اور مقدمہ کے ذریعہ اپنے خسر کی کسی بھی جائداد منقولہ یا غیر منقولہ سے کسی بھی مقدار میں حصہ وصول کرنا شرعاً حلال نہ ہوگا۔ قال اللہ تعالی: ولھن الربع مما ترکتم إن لم یکن لکم ولد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فان کان لہ اخوة فلامہ السدس من بعد وصیة یوصی بھا اودین۔۔ الآیہ (سورة النساء، رقم الآیة: ۱۲) عن النبی ﷺ قال: الحقوا الفرائض باھلھا فما بقی فھولاولیٰ رجل ذکر۔ ( بخاری شریف ج/۲ : ص/۲۹۷) "قال شیخنا: ویستفاد من کتب فقهائنا کالهدایة وغیرها: أن من ملك بملك خبیث، ولم یمكنه الرد إلى المالك، فسبیله التصدقُ علی الفقراء ... قال: و الظاهر أن المتصدق بمثله ینبغي أن ینوي به فراغ ذمته، ولایرجو به المثوبة." ( معارف السنن ج:1، ص:34،) قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ألا لا تظلموا! ألا لا یحل مال امرء إلا بطیب نفس منہ۔ (مشکوٰۃ المصابیح / باب الغصب والعاریۃ، ۲۵۵)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
بیت المعارف خیرآباد
( اودھ)
Related Question / متعلقہ سوال
کیا فرماتے ہیں مفتیانِ شرع متین درج ذیل مسئلہ کے بارے میں. عبد المجید خاں کی دو بیٹیاں تھیں،انہوں نے اپنی زمین کے بارے میں جو پینتیس بیگھا تھی. یہ وصیت کی تھی کہ چھ ۶ بگھا زمین جو فلاں جگہ پر ہے وہ فلاں مدرسہ مسجد میں دے دینا باقی انتیس ۲۹ بگھا زمین آپس میں دونوں بہنیں تقسیم کر لینا، چونکہ وصیت کا اندراج نہیں ہوا تھا اس لئے انکی وفات کے بعد کل زمین کی مالک انکی بیوی ہو گئیں. اور وقتاً فوقتاً اس کا کچھ غلہ کسی مدرسہ مسجد میں دیا جاتا رہا بعد میں عبد المجید خاں کی بڑی بیٹی نے ابا کی طرف سے ملی ہوئی زمین کا مالک اپنی بیٹی کو بنا دیا اب ان کا داماد چھ بگھا زمین جس کے بارے میں عبد المجید خاں نے وصیت کی تھی اسے لیکر اس کے بدلے میں دوسری جگہ زمین دینا چاھتا ہے جبکہ دونوں جگہ کی قیمت میں کافی فرق ہے. صورتِ مذکورہ میں کیا وصیت کی ہوئی زمین کا رد و بدل درست ہے؟
Feb 02, 2019
،کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام درج ذیل مسئلہ کے بارے میں ہمارے والد کا انتقال ہوگیا والد صاحب کے وارثین میں ایک لڑکا اور آٹھ لڑکیاں ہیں والد صاحب نے جو زمین چھوڑی تھی وہ تیس لاکھ (3000000 ) روپئے کی بیچی گئ ہے ان روپیوں میں ہر وارث کا شرعی حصہ کتنا کتنا ہوگا ؟
Jan 15, 2019
Home
Audio
Al-Quran
Video
Books
Services
Darul-Ifta
Online Darse Nizami
Contact
Live
About Us
Stay Updated
Subscribe for the latest
updates and articles
Your Opinion / Message